Sunday, 5 October 2025

زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے

 زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے

چاک چپ ہے تو رفو بولتا ہے

خامشی ایسی کہ دیکھی نہ سنی

ہر طرف عالم ہُو بولتا ہے

خواب سمجھوں کہ حقیقت اس کو

اک پرندہ لبِ جُو بولتا ہے

میں کہ مر کر بھی ابھی زندہ ہوں

جسم پر ہر سرِ مُو بولتا ہے

اب تو اک نام عطا کر یارب

کس و ناکس مجھے تُو بولتا ہے

وہ نمازیں کہ ادا ہو نہ سکیں

اب بھی صحرا میں وضو بولتا ہے


نسیم صدیقی

No comments:

Post a Comment