زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے
چاک چپ ہے تو رفو بولتا ہے
خامشی ایسی کہ دیکھی نہ سنی
ہر طرف عالم ہُو بولتا ہے
خواب سمجھوں کہ حقیقت اس کو
اک پرندہ لبِ جُو بولتا ہے
میں کہ مر کر بھی ابھی زندہ ہوں
جسم پر ہر سرِ مُو بولتا ہے
اب تو اک نام عطا کر یارب
کس و ناکس مجھے تُو بولتا ہے
وہ نمازیں کہ ادا ہو نہ سکیں
اب بھی صحرا میں وضو بولتا ہے
نسیم صدیقی
No comments:
Post a Comment