Thursday, 9 October 2025

زہر اک دوجے کے اندر بو رہا ہے آج کل

 زہر اک دوجے کے اندر بو رہا ہے آج کل

کس قدر زہریلا انساں ہو رہا ہے آج کل

شہر اپنا لوگ اپنے اور اپنا گھر بھی ہے

آدمی کیوں پھر بھی تنہا ہو رہا ہے آج کل

وقت سے پہلے مرے بچے بڑے ہونے لگے

اک عجب سا یہ زمانہ ہو رہا ہے آج کل

آئنے کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں لوگ

آئینہ بھی کتنا تنہا ہو رہا ہے آج کل

پھول تتلی رنگ خوشبو دوست اور دشمن سبھی

کاغذی ہر شے کا پیکر ہو رہا ہے آج کل

اس مشینی دور کا انعام ہے یہ اے ظفر

آدمی پہچان اپنی کھو رہا ہے آج کل


ظفر محمود

No comments:

Post a Comment