ہم کو واعظ نہ باغ ارم چاہیے
ایک ان کی نگاہ کرم چاہیے
دہر ہو یا کہ کعبہ ہو بت خانہ ہو
کچھ بھی ہو مجھ کو اپنا صنم چاہیے
دل ہمیشہ ہی جس میں الجھتا رہے
ان کی زلفوں کے وہ پیچ و خم چاہیے
جس میں اپنے صنم کا تصور نہ ہو
وہ خوشی چاہیے اور نہ غم چاہیے
ان کی بخشش کا کوئی ٹھکانہ نہیں
دامن معصیت اپنا نم چاہیے
چشم میگوں سے جس کی میں سرشار ہوں
ہاں مجھے وہ ہی پیر حرم چاہیے
وفا نیازی
No comments:
Post a Comment