Saturday, 11 October 2025

مرا لہجہ چرانا موت کا سامان کر لینا

 مرا لہجہ چرانا موت کا سامان کر لینا

یہی زاد سفر ہے تو سفر آسان کر لینا

طلب کے جال میں الجھا ہوا دل کب سمجھتا ہے

نئی دوزخ اگانا چھانو کا ارمان کر لینا

بھروسہ ایڑیاں رگڑے نہ کوئی آس دم توڑے

وفا کا نام بھی لینا تو دنیا چھان کر لینا

زمانہ بے گھری کے نام پر دشنام لکھتا ہے

ہوا کے دستخط بھی اب تو خیمہ تان کر لینا

کہیں ریشم کی ڈوری موت کا پھندا نہ بن جائے

دعا بھی آج کل بابا نظر پہچان کر لینا

نظر کہتی رہی گلشن بھی اب دستار دشمن ہے

خبر بنتا رہا نقصان پر نقصان کر لینا

نیا لہجہ نیا چہرہ نیا فیشن نہیں ہوتا

مکھوٹا پھینکنا خود پر بڑا احسان کر لینا


شبیر احمد قرار

No comments:

Post a Comment