مرا لہجہ چرانا موت کا سامان کر لینا
یہی زاد سفر ہے تو سفر آسان کر لینا
طلب کے جال میں الجھا ہوا دل کب سمجھتا ہے
نئی دوزخ اگانا چھانو کا ارمان کر لینا
بھروسہ ایڑیاں رگڑے نہ کوئی آس دم توڑے
وفا کا نام بھی لینا تو دنیا چھان کر لینا
زمانہ بے گھری کے نام پر دشنام لکھتا ہے
ہوا کے دستخط بھی اب تو خیمہ تان کر لینا
کہیں ریشم کی ڈوری موت کا پھندا نہ بن جائے
دعا بھی آج کل بابا نظر پہچان کر لینا
نظر کہتی رہی گلشن بھی اب دستار دشمن ہے
خبر بنتا رہا نقصان پر نقصان کر لینا
نیا لہجہ نیا چہرہ نیا فیشن نہیں ہوتا
مکھوٹا پھینکنا خود پر بڑا احسان کر لینا
شبیر احمد قرار
No comments:
Post a Comment