Saturday, 11 October 2025

ضبط کی حد سے بھی جس وقت گزر جاتا ہے

ضبط کی حد سے بھی جس وقت گزر جاتا ہے

درد ہونٹوں پہ ہنسی بن کے بکھر جاتا ہے

رنگ بھر جاتا ہے پھر عشق کے افسانے میں

اشک بن بن کے اگر خون جگر جاتا ہے

آج تک عالم وحشت میں پیے جاتے ہیں

کتنی مدت میں گھٹاؤں کا اثر جاتا ہے

جام پی لیتے ہیں سب دیکھنا ہے ظرف مگر

کون کس وقت اٹھا اور کدھر جاتا ہے؟

دور وحشت میں محبت میں جنوں میں انساں

جو نہ ممکن ہو کسی طور وہ کر جاتا ہے

اپنے بیگانوں سے کچھ بیش تھے آزاری میں

بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے

کتنا بے خوف ہو بے درد نہ کیوں ہو آخر

آئینہ دیکھ کے اعمال سے ڈر جاتا ہے

وقت کٹ جائے اگر عالم تنہائی میں

دل میں احساس ملاقات ہی مر جاتا ہے

وہ جو دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے انساں

اپنی منزل کی طرف سینہ سپر جاتا ہے

عالم ناز میں کچھ بھی تو نہیں تیرے سوا

اک تصور ہے جو تا حد نظر جاتا ہے

سینکڑوں داغ چمکتے ہیں تہ قلب اے شوق

کتنی گہرائی میں اف عکس اتر جاتا ہے


شوق مرادآبادی 

No comments:

Post a Comment