Friday, 3 October 2025

خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے

 خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے

پرواز بارِ دوش ہے تو پر سمیٹ لے

اپنی طلب کو غیر کی دہلیز پر نہ ڈال

وہ ہاتھ کھنچ گیا ہے تو چادر سمیٹ لے

سُرخی طلوعِ صبح کی لوحِ اُفق پہ لکھ

سارے بدن کا خُون جبیں پر سمیٹ لے

یکجا نہیں کتابِ ہُنر کے ورق ہنوز

ایامِ حرف حرف کا دفتر سمیٹ لے

جو پیڑ ہِل چکے ہیں انہیں آندھیوں پہ چھوڑ

شاید ہوا یہ راہ کے پتھر سمیٹ لے

زندہ لہو تو شہر کی گلیوں میں ہے رواں

شاہد رگوں میں کون یہ محشر سمیٹ لے


سلیم شاہد

No comments:

Post a Comment