کہیں صیاد اور گلچیں کی بن آئی تو کیا ہو گا
خزاں لے کر بہاروں کا کفن آئی تو کیا ہو گا
کبھی سوچا بھی تم نے بادۂ عشرت کے متوالو
جبینِ وقت پر کوئی شکن آئی تو کیا ہو گا
گریباں کیا سمجھ کر سی رہے ہو اپنے دیوانو
ہنسی ان کے لبوں پر دفعتاً آئی تو کیا ہو گا
پرستارانِ گُل نے بھول کر بھی یہ نہیں سوچا
گلستاں میں کبھی کانٹوں کی بن آئی تو کیا ہو گا
غنیمت جان اپنی خانہ ویرانی کے اے میکش
تجھے غربت میں گر یادِ وطن آئی تو کیا ہو گا
میکش بدایونی
رفیق احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment