Saturday, 4 October 2025

کہیں صیاد اور گلچیں کی بن آئی تو کیا ہو گا

 کہیں صیاد اور گلچیں کی بن آئی تو کیا ہو گا

خزاں لے کر بہاروں کا کفن آئی تو کیا ہو گا

کبھی سوچا بھی تم نے بادۂ عشرت کے متوالو

جبینِ وقت پر کوئی شکن آئی تو کیا ہو گا

گریباں کیا سمجھ کر سی رہے ہو اپنے دیوانو

ہنسی ان کے لبوں پر دفعتاً آئی تو کیا ہو گا

پرستارانِ گُل نے بھول کر بھی یہ نہیں سوچا

گلستاں میں کبھی کانٹوں کی بن آئی تو کیا ہو گا

غنیمت جان اپنی خانہ ویرانی کے اے میکش

تجھے غربت میں گر یادِ وطن آئی تو کیا ہو گا


میکش بدایونی

رفیق احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment