جس کو موج بلا نے پالا ہے
کب وہ طوفاں سے ڈرنے والا ہے
دشمنوں سے نہیں شکوہ
ہم کو یاروں نے مار ڈالا ہے
یہ خموشی بتا رہی ہے ہمیں
کوئی طوفان آنے والا ہے
اب خوشی کا کہیں بھی نام نہیں
ہر طرف غم کا بول بالا ہے
کچھ اجالے وہیں ملیں گے تمہیں
جس جگہ ہم نے جام اچھالا ہے
دن کے دیوانے دل نہ چھوٹا کر
رات کا آخری سنبھالا ہے
جانتا ہوں میں اس زمانے کو
تن کا اجلا ہے من کا کالا ہے
کون قاتل اسے کہے گا ظفر
دیکھنے میں جو بھولا بھالا ہے
ظفر محمود
No comments:
Post a Comment