بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں
ایسا دستاروں کا جمگھٹ ہے کہ سر ملتا نہیں
خواہ دونوں ساتھ مل کر طے کریں یہ فاصلہ
اے ہوا! تجھ کو بھی کوئی ہمسفر ملتا نہیں
قمقموں کی آنچ نے پگھلا دئیے منظر تمام
چاند اب کوئی کسی بھی بام پر ملتا نہیں
اک تقاضا ہوں جو پورا ہی نہیں ہوتا کبھی
سچ یہی ہے اور اس سچ سے مفر ملتا نہیں
نسیم صدیقی
No comments:
Post a Comment