Thursday, 2 October 2025

جب سے شہر دل کا رکھوالا گیا

 جب سے شہر دل کا رکھوالا گیا

مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا گیا

کوششیں سب رائیگاں ہوتی گئیں

ٹُوٹ کر ہی پاؤں کا چھالا گیا

سانپ سے نیندوں میں لہراتے رہے

خواب کے پنجرے میں کیا پالا گیا

گُنگنا کر خامشی توڑی گئی

مُسکرا کر ہجر کو ٹالا گیا

دائرے سے چھوڑ کر کشتی گئی

چاند جیسے چھوڑ کر ہالا گیا

منظروں کو پی گئیں ہریالیاں

آنکھ کا پانی کہاں ڈالا گیا؟

اب یہ زہریلی اُداسی جھیلیے

شہد سی میٹھی غزل والا گیا


ایم کوٹھیاوی راہی

No comments:

Post a Comment