جب سے شہر دل کا رکھوالا گیا
مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا گیا
کوششیں سب رائیگاں ہوتی گئیں
ٹُوٹ کر ہی پاؤں کا چھالا گیا
سانپ سے نیندوں میں لہراتے رہے
خواب کے پنجرے میں کیا پالا گیا
گُنگنا کر خامشی توڑی گئی
مُسکرا کر ہجر کو ٹالا گیا
دائرے سے چھوڑ کر کشتی گئی
چاند جیسے چھوڑ کر ہالا گیا
منظروں کو پی گئیں ہریالیاں
آنکھ کا پانی کہاں ڈالا گیا؟
اب یہ زہریلی اُداسی جھیلیے
شہد سی میٹھی غزل والا گیا
ایم کوٹھیاوی راہی
No comments:
Post a Comment