Monday, 3 November 2025

دور پھیلا ہوا سمندر ہو

 دور پھیلا ہوا سمندر ہو

جس کے ساحل پہ تُو اکیلا ہو

اور ساحل سے کچھ ذرا ہٹ کے

ایک ننھا سا اجنبی پُل ہو

اور پُل پر کوئی سراپا ہو

جس کے بالوں میں نرم کلیاں ہوں

جس کے ہاتھوں میں شوخ گجرا ہو

جس کے ماتھے پہ اک ستارا ہو

پُل پہ لاکھوں چراغ جلتے ہوں

دُور نغمہ کوئی اُبھرتا ہو


صائمہ خیری

No comments:

Post a Comment