دور پھیلا ہوا سمندر ہو
جس کے ساحل پہ تُو اکیلا ہو
اور ساحل سے کچھ ذرا ہٹ کے
ایک ننھا سا اجنبی پُل ہو
اور پُل پر کوئی سراپا ہو
جس کے بالوں میں نرم کلیاں ہوں
جس کے ہاتھوں میں شوخ گجرا ہو
جس کے ماتھے پہ اک ستارا ہو
پُل پہ لاکھوں چراغ جلتے ہوں
دُور نغمہ کوئی اُبھرتا ہو
صائمہ خیری
No comments:
Post a Comment