پوشیدہ سب کی آنکھ سے دل کی کتاب رکھ
ممکن ہو گر تو زخم کے بدلے گلاب رکھ
احسان کر کے بھول جا احسان مت جتا
کس کس کو کیا دیا ہے کبھی مت حساب رکھ
صحن چمن کے غنچوں میں تقسیم کر خوشی
شبنم کی طرح قلب کی آنکھیں پر آب رکھ
دیمک زدہ کتب سے نہ الماریاں سجا
پڑھنے کو تجربات کی زندہ کتاب رکھ
ناکامیوں کی دھوپ میں کٹتی ہے زندگی
دل کے سکون کیلئے آنکھوں میں خواب رکھ
ہر ذرہ کو چمکنے کا انداز بخش دے
ہر صبح نو کے واسطے اک آفتاب رکھ
شاہین زندگی کو بنانا ہو کامیاب
خشت سوال کے لیے سنگ جواب رکھ
محمد عثمان شاہین
No comments:
Post a Comment