Saturday, 1 November 2025

جب تری بزم سے ہم پیاس بجھا کر جاتے

 جب تِری بزم سے ہم پیاس بجھا کر جاتے

اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنا کر جاتے

تشنہ لب اٹھ گئے محفل سے تمہاری ورنہ

دل میں بھڑکے ہوئے شعلے کو بجھا کر جاتے

ہوش میں رہ کے جو کہنا تھا مشکل ہم سے

نشے کی جھونک میں وہ بات بتا کر جاتے

اک عنایت کی نظر ہم پہ اگر ہو جاتی

دل کے ٹکڑے تِرے قدموں پہ لٹا کر جاتے

تھوڑی امید بھی اک جام کی ہوتی ہم کو

اس بھروسے پہ کٹی عمر بتا کر جاتے

تُو نظر بھر کے اگر دیکھتا بسمل کی طرف

دل کے شیشے میں تِرا عکس دکھا کر جاتے


دیوداس بسمل

No comments:

Post a Comment