عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تجھ کو ہی فقط حمد سزاوار ہے یا رب
معبودِ خلائق ہے تُو غفار ہے یا رب
یکتا ہے تُو اور ذات احد پھر یہ تماشہ
بس تُو ہی جہاں دیکھیے دو چار ہے یا رب
عالم ہے وہ حیرت کدہ آئینے کی مانند
حیران ہر اک غافل و ہشیار ہے یا رب
کہتے ہیں اسے چشم بصیرت کہ وہ دیکھے
مظہر میں تیری ذات کا اظہار ہے یا رب
وحدت میں یہ کثرت کے تماشے کا معمہ
کھلتا نہیں اس طرح کا اسرار ہے یا رب
بے ہوش ہوا نشۂ الفت میں جو تیرے
ہیں ہوش اسی کو وہ ہشیار ہے یا رب
رحمت کا بھروسا ہے تِری ورنہ جہاں میں
جس شخص کو دیکھا وہ گنہگار ہے یا رب
دیکھوں تو میں حیراں ہوں کہ کیونکہ تجھے دیکھوں
میری ہی خودی مانعِ دیدار ہے یا رب
مجھ سے بھی سیاہ کار کو بخشے تو عجب کیا
مستغنیٔ ذاتی تِری سرکار ہے یا رب
منصور کی مانند کبھی میں بھی چڑھوں گا
زینہ ہی ترے بام کا کردار ہے یا رب
رحمت کی نظر اس پہ بھی ہو جائے کسی روز
یہ مہر تمنائے دیدار ہے یا رب
مہر دہلوی
منشی سورج نرائن
No comments:
Post a Comment