Thursday 12 January 2017

اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو

اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو
شاید تُو کل بلائے، تو یہ بے نوا نہ ہو
بیٹھا ہے کس خیال سے اے قلبِ نامراد
اس گھر میں کون آئیگا جس گھر میں دیا نہ ہو
ایسی تو بد لحاظ نہ تھی وہ ستم ظریف
اے زیست تُو نے موت سے کچھ کہہ دیا نہ ہو
لب جل گئے ہیں تلخئ صہبائے زیست سے
اے پیرِ مے کدہ یہ تِری بد دعا نہ ہو
انساں کو کوسیۓ کہ مشیت کو کوسیۓ
پردے میں نا خدا کے رضائے خدا نہ ہو
جس چیز سے طلوعِ قیامت مراد ہے 
میرے شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہ ہو
میری نوا سکوتِ بیاباں کی گونج ہے
اے آبروئے نطلق! میری ہمنوا نہ ہو
دیتا نہیں عدؔم میں جوانی کو بد دعا
اس خوف سے کہ یہ بھی کسی کی رضا نہ ہو

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment