اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو
شاید تُو کل بلائے، تو یہ بے نوا نہ ہو
بیٹھا ہے کس خیال سے اے قلبِ نامراد
اس گھر میں کون آئیگا جس گھر میں دیا نہ ہو
ایسی تو بد لحاظ نہ تھی وہ ستم ظریف
لب جل گئے ہیں تلخئ صہبائے زیست سے
اے پیرِ مے کدہ یہ تِری بد دعا نہ ہو
انساں کو کوسیۓ کہ مشیت کو کوسیۓ
پردے میں نا خدا کے رضائے خدا نہ ہو
جس چیز سے طلوعِ قیامت مراد ہے
میرے شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہ ہو
میری نوا سکوتِ بیاباں کی گونج ہے
اے آبروئے نطلق! میری ہمنوا نہ ہو
دیتا نہیں عدؔم میں جوانی کو بد دعا
اس خوف سے کہ یہ بھی کسی کی رضا نہ ہو
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment