دلربائی میں جو تلوار بھی بن سکتے ہیں
کیا وہ قسمت سے مِرے یار بھی بن سکتے ہیں
پارساوٓں کے خد و خال سے گمراہ نہ ہو
صاحبِ ذوق ہیں مۓ خوار بھی بن سکتے ہیں
رحم کھا کر تُو چلا آئے عیادت کو تو ہم
سنگدل اتنی حقارت سے نہ ٹھکرا ہم کو
ہم اگر چاہیں تو خود دار بھی بن سکتے ہیں
اب تو یزداں بھی تجھے دیکھے تو پہروں سوچے
کیا کہیں یہ لب و رخسار بھی بن سکتے ہیں
تو میرے گھر میں چلا آئے تو جنت کیا ہے
اس سے بہتر درِ دیوار بھی بن سکتے ہیں
ہم کو رغبت ہی نہیں خلق فریبی سے عدمؔ
ورنہ ہم کاشفِ اسرار بھی بن سکتے ہیں
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment