سرخ مہندی سے نہیں اس بتِ خونخوار کے ہاتھ
دست آویز مِرے خوں کی لگی یار کے ہاتھ
بندگی کی یہ تمنا ہے کوئی لے جو ہمیں
بکتے ہیں کوڑیوں کے مول خریدار کے ہاتھ
نیم جاں دل ہے طلب گاہ سلوکِ شمشیر
پاوٓں کو ان کے چھؤا میں تو ہنس کر بولے
کاٹے جاتے ہیں تو ایسے ہی گنہگار کے ہاتھ
نہیں بے وجہ یہ ابرو سے اشارے ان کے
عشق بازوں کو بتاتے ہیں یہ تلوار کے ہاتھ
زر سا محبوب ستم گار نہیں اس کے لیے
بیچتے سر کو جواں مرد ہیں سردار کے ہاتھ
رُوئے زیبا نہ دکھایا کریں ہر ایک کو آپ
قدر اس شے کی نہیں جو گئی دوچار کے ہاتھ
توڑ لے اے شجرِ حسن لبوں کے عناب
ضعف رکھے جو نہ باندھے تِرے بیمار کے ہاتھ
کام جس کا ہے اسی سے ہے تعلق رکھتا
پاؤں کی طرح سے زیبا نہیں رفتار کے ہاتھ
وعدۂ وصل کی شادی سے فنا دَم ہو گا
قتل کر ہاتھ پر اپنے نہ صنم مار کے ہاتھ
نہ جلائے، نہ تو گاڑے کوئی ہم کو آتشؔ
مردہ اپنا نہ پڑے کافر و دیندار کے ہاتھ
حیدر علی آتش
No comments:
Post a Comment