Monday, 2 November 2015

یگانہ بن کے ہو جائے وہ بے گانہ تو کیا ہو گا

یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہو گا
جو پہچانا تو کیا ہو گا، نہ پہچانا تو کیا ہو گا
کسی کو کیا خبر آنسو ہیں کیوں چشمِ محبت میں
فغاں سے گونج اٹھے گا جو ویرانہ تو کیا ہو گا
ہماری سی محبت تم کو ہم سے ہو تو کیا گزرے
بنا دے شمع کو بھی عشق پروانہ تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ دنیا عقل کا انجام دیکھے گی
حدِ وحشت سے بڑھ جائے گا دیوانہ تو کیا ہو گا
تعصب درمیاں سے آپ کو واپس نہ لے آئے
حرم کی راہ میں نکلا صنم خانہ تو کیا ہو گا
تصور کیجئے اس آنے والے دورِ برہم کا
گدا توڑیں گے جب پندارِ شاہانہ تو کیا ہو گا
مداوا ہو نہیں سکتا ہے دل پر چوٹ کھانے کا
مِرے قدموں پہ رکھ دو تاجِ شاہانہ تو کیا ہو گا
صباؔ جو زندگی بھیگی ہے بارشِ گُل سے
بُلائے گا کسی دن اس کو ویرانہ تو کیا ہو گا

صبا اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment