Monday, 2 November 2015

جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے
یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہمارے اور تمہارے واسطے میں اک نیا پن تھا
مگر دنیا پرانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے
عیاں کر دی ہر اک پر ہم نے اپنی داستانِ دل
یہ کس کس سے چھپانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
جہاں دو دل مِلے دنیا نے کانٹے بو دئیے اکثر
یہی سب کی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
محبت ہم نے تم نے ایک وقتی چیز سمجھی
محبت جاوِدانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے
متاعِ حسن و الفت پر یقین کتنا تھا دونوں کو
یہاں ہر چیز فانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے
گزاری ہے جوانی روٹھنے میں، اور منانے میں
گھڑی بھر کی جوانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے
ادائے کم نگاہی نے کِیا رُسوا محبت کو
یہ کس کی مہربانی ہے نہ تم سمجھے، نہ ہم سمجھے

صبا اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment