Tuesday, 3 November 2015

جو کچھ بچا ہے اس کو سمیٹو چلو چلیں

جو کچھ بچا ہے اس کو سمیٹو چلو چلیں
 اب راکھ ہی کو تکتے رہو گے اٹھو چلیں
جن کے لیے یہ ساری مصیبت اٹھائی ہے
آگے بھی اور کام ہیں ان سے کہو چلیں
چلتے رہے تو لوگ بھی چلتے رہیں گے ساتھ
اب کس کا انتظار ہے، میری سنو چلیں
لکھیں تو اس زمیں کی حمایت کا درس ہو
مٹی میں اعتبار کے کچھ بیج بو چلیں
گلزار ہو کہ دار ہو، سچ کو سخن کریں
میلا بہت ضمیر ہے کچھ داغ دھو چلیں
بالوں میں جو بھی خاک سجی ہے وطن کی ہے
دامن بھی تار تار ہے، اس کو سیئو چلیں 
پلکوں نے آنسوؤں سے گزرتے ہوئے کہا
شامِ فراقِ یار ہے اس کو بھِگو چلیں چلیں

حلیم قریشی

No comments:

Post a Comment