جو کچھ بچا ہے اس کو سمیٹو چلو چلیں
اب راکھ ہی کو تکتے رہو گے اٹھو چلیں
جن کے لیے یہ ساری مصیبت اٹھائی ہے
آگے بھی اور کام ہیں ان سے کہو چلیں
چلتے رہے تو لوگ بھی چلتے رہیں گے ساتھ
لکھیں تو اس زمیں کی حمایت کا درس ہو
مٹی میں اعتبار کے کچھ بیج بو چلیں
گلزار ہو کہ دار ہو، سچ کو سخن کریں
میلا بہت ضمیر ہے کچھ داغ دھو چلیں
بالوں میں جو بھی خاک سجی ہے وطن کی ہے
دامن بھی تار تار ہے، اس کو سیئو چلیں
پلکوں نے آنسوؤں سے گزرتے ہوئے کہا
شامِ فراقِ یار ہے اس کو بھِگو چلیں چلیں
حلیم قریشی
No comments:
Post a Comment