Tuesday, 3 November 2015

یہ درد ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی

یہ دردِ ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی 
کہیں اِدھر کی تو دنیا اُدھر نہیں ہوتی 
نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی 
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
ستائے جاؤ، نہیں کوئی پوچھنے والا 
مِٹائے جاؤ، کسی کو خبر نہیں ہوتی 
قفس میں خوف ہے صیاد کا نہ برق کا ڈر
کبھی یہ بات نصیب اپنے گھر نہیں ہوتی 
منانے آئے ہو دنیا میں جب سے رُوٹھ گیا 
یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی 
پھروں گا حشر میں کس کس سے پوچھتا تم کو 
وہاں کسی کو، کسی کی خبر نہیں ہوتی 
کسی غریب کے نالے ہیں آپ کیوں چونکے 
حضور! شب کو اذانِ سحر نہیں ہوتی 
یہ مانا، آپ قسم کھا رہے ہیں وعدوں پر
دلِ حزِیں کو تسلی مگر نہیں ہوتی 
جگر کو تھام کے آئے ہو تم نے دیکھ لیا
کسی کی آہ کبھی بے اثر نہیں ہوتی 
تمہیں دعائیں کرو کچھ مریضِ غم کے لیے 
کہ اب کسی کی دعا کار گر نہیں ہوتی 
بس آج رات کو تیمار دار سو جائیں 
‘مریض اب نہ کہے گا ’سحر نہیں ہوتی 
قمرؔ یہ شامِ فراق اور اضطرابِ سحر 
ابھی تو چار پہر تک سحر نہیں ہوتی 

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment