Tuesday, 3 November 2015

وعدہ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر

وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر 
وہ تصور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر 
شوقِ دیدار شہیدوں کو ہے کون اُن سے کہے 
سیر کو جائیں سُوئے گورِ غریباں ہو کر 
فاتحہ پڑھ کے مِری قبر سے قاتل جو اُٹھا 
خاک اُڑ اُڑ کر لِپٹنے لگی ارماں ہو کر 
میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا 
در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نِگہبان ہو کر 
شمع تُربت پہ مِری دیکھ کے بے مونس و یار 
پھول تا صبح چڑھاتی رہی گِریاں ہو کر
رات بھر ڈر ہی رہا صبح کے ہونے کا قمرؔ 
وصل کی رات کٹی ہے شبِ ہجراں ہو کر

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment