Sunday, 1 November 2015

اے عشق کیا قصور تھا مجھ بے قصور کا

اے عشق کیا قصور تھا مجھ بے قصور کا
انسانیت نے داغ لگایا شعور کا
عالم جو طور کا ہے وہی دل کے نور کا
کچھ کچھ جو فرق بھی ہے تو نزدیک و دور کا
اپنی تو رات کٹ گئی نالوں کے شغل میں
کیسا رہا مزاجِ مبارک حضور کا
دُھن ہی یہی کہ کل نہیں ہو جائے آج حشر
اللہ رے، انتظار دلِ نا صبور کا
ساقی نے مئے سے جام لبا لب جو بھر دیا
چہرہ جھلک گیا مِری آنکھوں میں حور کا
اچھا ہُوا کہ ہجر کی راتیں بھی دیکھ لیں
تھا اشتیاق شورِ یوم النشور کا
ساقی تِرے بغیر اندھیرا ہے بزم میں
اے آفتاب! وقت ہے تیرے ظہور کا
غمزوں نے گر لگائی نہ اُن سے بُری بھَلی
پھر کیا سبب جفا و ستم کے وفور کا
صافی دلوں کے ہاتھ میں دولت ہے اور نہ زور
بازار کیوں نہ گرم ہو اے شادؔ زور کا

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment