اے عشق کیا قصور تھا مجھ بے قصور کا
انسانیت نے داغ لگایا شعور کا
عالم جو طور کا ہے وہی دل کے نور کا
کچھ کچھ جو فرق بھی ہے تو نزدیک و دور کا
اپنی تو رات کٹ گئی نالوں کے شغل میں
دُھن ہی یہی کہ کل نہیں ہو جائے آج حشر
اللہ رے، انتظار دلِ نا صبور کا
ساقی نے مئے سے جام لبا لب جو بھر دیا
چہرہ جھلک گیا مِری آنکھوں میں حور کا
اچھا ہُوا کہ ہجر کی راتیں بھی دیکھ لیں
تھا اشتیاق شورِ یوم النشور کا
ساقی تِرے بغیر اندھیرا ہے بزم میں
اے آفتاب! وقت ہے تیرے ظہور کا
غمزوں نے گر لگائی نہ اُن سے بُری بھَلی
پھر کیا سبب جفا و ستم کے وفور کا
صافی دلوں کے ہاتھ میں دولت ہے اور نہ زور
بازار کیوں نہ گرم ہو اے شادؔ زور کا
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment