پس از معشوق مرنا عشق کو بدنام کرنا ہے
خدا مجنوں کو بخشے مر گیا اور ہم کو مرنا ہے
تعلق چھوڑ دیں، پائیں کہاں تِرا سا دل زاہد
ہمیں تو زندگی بھر دم اسی کافر کا بھرنا ہے
صبا مشاطۂ شبنم سے کہہ دے جلد حاضر ہو
اکڑ لیں اہل دولت ہم کو ان کی ریس کیا لازم
انہیں مرنا نہ ہو شاید، مگر ہم کو تو مرنا ہے
امید و بِیم کے دریا کی طوفاں خیز موجیں ہیں
کھڑے ساحل پہ ہیں اور پَیر کر اس پار اترنا ہے
امید و نا امیدی کی طرف رخ تک نہیں کرتے
بہر صورت، ہمیں تو کام اپنا کر گزرنا ہے
کبھی غافل نہ رہنا نفس ہے اے شادؔ سن رکھو
اگر ڈرنا ہے دنیا میں تو اس دشمن سے ڈرنا ہے
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment