Sunday, 1 November 2015

اے شب غم ہم ہیں اور باتیں دل ناکام سے

اے شبِ غم ہم ہیں، اور باتیں دلِ ناکام سے
سوتے ہیں نامِ خدا، سب اپنے گھر آرام سے
جاگنے والوں پہ کیا گزری وہ جانیں کیا بھلا
سو رہے ہیں جا کے بستر پر جو اپنے شام سے
جیتے جی ہم تو غمِ فردا کی دُھن میں مر گئے
کچھ وہی اچھے ہیں، جو واقف نہیں انجام سے
نالہ کرنے کے لیے بھی طبعِ خوش درکار ہے
کیا بتاؤں دل ہٹا جاتا ہے کیوں اس کام سے
دیکھتے ہو مے کدے میں مے کشو ساقی بغیر
کس غضب کی بے کسی پیدا ہے شکلِ جام سے
رات دن پیتے ہیں بھر بھر کر مئے عشرت کے جام
کچھ وہی اچھے ہیں نا واقف ہیں جو انجام سے
اسمِ کو اپنے مسمّیٰ سے ہے لازم کچھ لگاؤ
شادؔ آخر کس طرح خوش ہوں میں اپنے نام سے

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment