نشے میں ڈوب گیا میں، فضا ہی ایسی تھی
دیارِ حسن کی آب و ہوا ہی ایسی تھی
نہال کر دیا پلکوں کی اوٹ سے مجھ کو
نگاہِ یار! تری کم نگاہی ایسی تھی
ہماری پوری گواہی بھی معتبر نہ رہی
بدن کی شاخ پہ ایک آدھ پھول بھی نہ رہا
ہوائے موسمِ ہجراں بلا ہی ایسی تھی
اٹھی نہیں مری آنکھیں مگر جھکی بھی نہیں
برہنگی کے بدن پر قبا ہی ایسی تھی
مرے ہی اِذن سے چلتی تھیں دھڑکنیں اس کی
کسی کے دِل پہ مری بادشاہی ایسی تھی
مرا گناہ نہیں ڈگمگانا ایماں کا
خدا گواہ! وہ کافر ادا ہی ایسی تھی
محل میں جھوم اٹھیں شاہزادیاں ساری
گدا ہی ایسا تھا اور اِلتجا ہی ایسی تھی
برا سلوک سہا اور ترا بھلا چاہا
ہمارے دِل میں تری خیر خواہی ایسی تھی
خدا کسی کو نہیں ایسا ناخدا دیتا
ہماری ناؤ میں خلقِ خدا ہی ایسی تھی
فرات و نیل کے پانی سے بھی نہ دھل پائی
منافقوں کے دِلوں پر سیاہی ایسی تھی
ہر اِک مکان کا دروازہ کھل گیا فارسؔ
گلی میں گونجنے والی صدا ہی ایسی تھی
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment