Sunday, 1 November 2015

ایک صراحی بولی قلقل اللہ ہو

ایک صراحی بولی قُل قُل، اللہ ہُو
پھر کیا تھا ہر سمت مچا غل اللہ ہو
میں وہ سوار کہ جس کی رہ میں غبار نہ گرد
میری سواری اسپِ تخیل، اللہ ہو
اپنے وجود میں جھانک کے میں تو ڈر ہی گیا
جز میں یقیناً رہتا ہے کل، اللہ ہو
زادِ سفر سے دوہری ہوئی جاتی ہے کمر
کتنا بھاری ہے یہ توکل، اللہ ہو
یا تو باغ کو دیکھ کے مر ہی جائے گی
یا پھر چیخ اٹھے گی بلبل، اللہ ہو
دنیا ایک خرابہ ہے اور اس میں بھی
لوگ کھلائے جاتے ہیں گل، اللہ ہو
پینے کو ہے دشتِ بلا میں آبِ سناں
کرنے کو ہیں زخم تناول، اللہ ہو
بچھا ہوا ہے کب سے میرا مصلا دیکھ
ریت پہ نقشِ پائے دلدل، اللہ ہو

رفیق راز

No comments:

Post a Comment