تمہارے کانپتے ہاتھوں میں اک گلاس لکھوں
اور اپنے تپتے لبوں پر شدید پیاس لکھوں
میں جانتا ہوں گھنی دھند میں ضروری ہے
کہ اپنی آنکھ کو منظر کے آس پاس لکھوں
قلم بھی سونے کا آیا ہے اب کے نذرانہ
وہ چاہتے ہیں کہ میں سنگ کو کپاس لکھوں
لکھوں تو حرف و صدا کو لکھوں میں اشرفیاں
مگر سکوت کو اک گنجِ بے قیاس لکھوں
غبار و گرد کو سب بے قرار لکھتے ہیں
میں کیوں نہ موجِ صبا ہی کو بدحواس لکھوں
وہ شاعری میں غلو کو پسند کرتا ہے
وہ چاہتا ہے اسے میں وفا شناس لکھوں
مِرے ہی اشک سے یہ معجزہ نہیں ہو گا
میں کیسے خشک زمیں پر اکیلے گھاس لکھوں
رفیق راز
اور اپنے تپتے لبوں پر شدید پیاس لکھوں
میں جانتا ہوں گھنی دھند میں ضروری ہے
کہ اپنی آنکھ کو منظر کے آس پاس لکھوں
قلم بھی سونے کا آیا ہے اب کے نذرانہ
وہ چاہتے ہیں کہ میں سنگ کو کپاس لکھوں
لکھوں تو حرف و صدا کو لکھوں میں اشرفیاں
مگر سکوت کو اک گنجِ بے قیاس لکھوں
غبار و گرد کو سب بے قرار لکھتے ہیں
میں کیوں نہ موجِ صبا ہی کو بدحواس لکھوں
وہ شاعری میں غلو کو پسند کرتا ہے
وہ چاہتا ہے اسے میں وفا شناس لکھوں
مِرے ہی اشک سے یہ معجزہ نہیں ہو گا
میں کیسے خشک زمیں پر اکیلے گھاس لکھوں
رفیق راز
No comments:
Post a Comment