Sunday, 1 November 2015

تمہارے کانپتے ہاتھوں میں اک گلاس لکھوں

تمہارے کانپتے ہاتھوں میں اک گلاس لکھوں
اور اپنے تپتے لبوں پر شدید پیاس لکھوں
میں جانتا ہوں گھنی دھند میں ضروری ہے
کہ اپنی آنکھ کو منظر کے آس پاس لکھوں
قلم بھی سونے کا آیا ہے اب کے نذرانہ
وہ چاہتے ہیں کہ میں سنگ کو کپاس لکھوں
لکھوں تو حرف و صدا کو لکھوں میں اشرفیاں
مگر سکوت کو اک گنجِ بے قیاس لکھوں
غبار و گرد کو سب بے قرار لکھتے ہیں
میں کیوں نہ موجِ صبا ہی کو بدحواس لکھوں
وہ شاعری میں غلو کو پسند کرتا ہے
وہ چاہتا ہے اسے میں وفا شناس لکھوں
مِرے ہی اشک سے یہ معجزہ نہیں ہو گا
میں کیسے خشک زمیں پر اکیلے گھاس لکھوں

رفیق راز

No comments:

Post a Comment