Sunday, 1 November 2015

ہجوم یاس کا نرغہ ہے ہم اکیلے ہیں

ہجومِ یاس کا نرغہ ہے، ہم اکیلے ہیں
تِرے فقیر نے یہ معرکے بھی جھیلے ہیں
بغیر ایک کے ہو دوسرے کو کیونکر چین
کہ حسن و عشق تو بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں
گلی سے آپ کے عاشق اٹھا چکے بستر
بڑے گُرو کے پڑھائے ہوئے یہ چیلے ہیں
لکھے ہیں سخت زبانی کے نرم نرم جواب
قلم کی نوک سے ہم نے پہاڑ ٹیلے ہیں
لحد کی یاد جب آتی ہے، دل یہ کہتا ہے
ہزار ساتھ رہے کوئی، پھر اکیلے ہیں
خدا ہی ہے جو تعلق کی گھتیاں سلجھیں
جہاں میں شادؔ عجب طرح کے جھمیلے ہیں

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment