ہجومِ یاس کا نرغہ ہے، ہم اکیلے ہیں
تِرے فقیر نے یہ معرکے بھی جھیلے ہیں
بغیر ایک کے ہو دوسرے کو کیونکر چین
کہ حسن و عشق تو بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں
گلی سے آپ کے عاشق اٹھا چکے بستر
لکھے ہیں سخت زبانی کے نرم نرم جواب
قلم کی نوک سے ہم نے پہاڑ ٹیلے ہیں
لحد کی یاد جب آتی ہے، دل یہ کہتا ہے
ہزار ساتھ رہے کوئی، پھر اکیلے ہیں
خدا ہی ہے جو تعلق کی گھتیاں سلجھیں
جہاں میں شادؔ عجب طرح کے جھمیلے ہیں
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment