ہارنے والا جیت بھی جائے جیتنے والا ہارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی
یہ جیون کی بازی ہی کوئی ایسا ویسا جوا نہیں
سدا کسی کے ہوں پوبارہ ایسا تو کبھی ہوا نہیں
ہم نے کنکر بنتے دیکھے آسمان کے تارے بھی
ہم چاہیں تو اپنے لیے تقدیر کھلونا بن جائے
اپنے ہاتھ سے ہم چھولیں تو مٹی سونا بن جائے
قسمت پاؤں چومتی ہے پر کوئی اسے للکارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی
بازی ہار کے بھی ہم تم کو اپنا میت سمجھتے ہیں
ہم تو یار کی جیت کو پیارے اپنی جیت سمجھتے ہیں
آگ سے ہاتھ جلے پر اس میں ہوتے ہیں لشکارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment