Wednesday, 4 November 2015

ہارنے والا جیت بھی جائے جیتنے والا ہارے بھی

ہارنے والا جیت بھی جائے جیتنے والا ہارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی

یہ جیون کی بازی ہی کوئی ایسا ویسا جوا نہیں
سدا کسی کے ہوں پوبارہ ایسا تو کبھی ہوا نہیں
ہم نے کنکر بنتے دیکھے آسمان کے تارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی

ہم چاہیں تو اپنے لیے تقدیر کھلونا بن جائے
اپنے ہاتھ سے ہم چھولیں تو مٹی سونا بن جائے
قسمت پاؤں چومتی ہے پر کوئی اسے للکارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی

بازی ہار کے بھی ہم تم کو اپنا میت سمجھتے ہیں
ہم تو یار کی جیت کو پیارے اپنی جیت سمجھتے ہیں
آگ سے ہاتھ جلے پر اس میں ہوتے ہیں لشکارے بھی
اس دنیا کی جھولی میں پھول بھی ہیں انگارے بھی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment