Wednesday, 4 November 2015

صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات

صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
بات کی بات تو ہے بیٹھ بھی لو بات کی بات
عرش پر رہتے ہیں کیا کعبے کے رہنے والے
کوئی سنتا ہی نہیں اہلِ خرابات کی بات
یہ کوئی بات ہے خُم ساتھ لیے واعظ آئے
اور پھر میں نہ سنو قبلۂ حاجات کی بات
ظرف بے مے سے پلائے تو حرم میں پھیلی
پھیلتی جلد ہے کچھ اہلِ کرامات کی بات
رات کعبے میں گئی قلقلِ مینا بن کر
نہ تو چھپتی ہے نہ دبتی ہے خرابات کی بات
کوستے ہیں وہ بری طرح جو کہتا ہوں ریاضؔ
رات بھر آج بھی ہوتی رہی کل رات کی بات

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment