Monday, 16 November 2015

انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا

انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا
سمجھو کہ ابھی ہاتھ ثمر تک نہیں پہنچا
مژگاں پہ رکے ہیں ابھی ڈھلکے نہیں آنسو
یہ سوچ کا سیلاب سفر تک نہیں پہنچا
کچھ لوگ ابھی خیر کی خواہش کے امیں ہیں
دستار کا جھگڑا ابھی سر تک نہیں پہنچا
پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ
سنتے ہیں بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا
انسان تو دکھ درد کے صحراؤں میں گم ہے
یہ قافلہ خوشیوں کے ڈگر تک نہیں پہنچا
مدت سے محبت کے سفر میں ہوں کرامت
لیکن ابھی چاہت کے نگر تک نہیں پہنچا

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment