Friday, 1 January 2016

باغوں میں پڑے جھولے

باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو 
ہم تم کو نہیں بھولے

یہ رقص ستاروں کا
سن لو کبھی افسانہ 
تقدیر کے ماروں کا

ساون کا مہینا ہے
ساجن سے جدا رہ کر 
جینا کوئی جینا ہے

راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر 
افسانہ ہمارا ہو

دل میں ہیں تمنائیں
ڈر ہے کہ کہیں ہم تم 
بدنام نہ ہو جائیں

اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بھلا بھیجو 
یا آپ چلے آؤ

اب اور نہ ترساؤ
یا پاس بلا لو ہمیں 
یا آپ چلے آؤ

یہ دل بہت دکھا ہے
اور سانس بھی رکا ہے
ایسے میں لوٹ آؤ
دھیرے سے مسکراؤ
ہم پھر سے جی اٹھیں گے
اور سب سے یہ کہیں گے
تم ہم کو نہیں بھولے
باغوں میں پڑے جھولے

چراغ حسن حسرت

No comments:

Post a Comment