باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
یہ رقص ستاروں کا
سن لو کبھی افسانہ
ساون کا مہینا ہے
ساجن سے جدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
دل میں ہیں تمنائیں
ڈر ہے کہ کہیں ہم تم
بدنام نہ ہو جائیں
اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بھلا بھیجو
یا آپ چلے آؤ
اب اور نہ ترساؤ
یا پاس بلا لو ہمیں
یا آپ چلے آؤ
یہ دل بہت دکھا ہے
اور سانس بھی رکا ہے
ایسے میں لوٹ آؤ
دھیرے سے مسکراؤ
ہم پھر سے جی اٹھیں گے
اور سب سے یہ کہیں گے
تم ہم کو نہیں بھولے
باغوں میں پڑے جھولے
چراغ حسن حسرت
No comments:
Post a Comment