Friday, 15 January 2016

ہستی کے کاروبار میں جس کا وجود تھا

ہستی کے کاروبار میں جس کا وجود تھا
وہ بے نیازِ غم مِرا ذوقِ سجود تھا 
تقسیمِ کائنات شجر در شجر ہوئی 
مقسوم ہست ہے، کوئی مفہوم بود تھا 
تجھ پر نثار یوں بھی ہوئے تیرے جاں نثار 
سرمایۂ حیات زیاں تھا نہ سود تھا 
صحرائے دوستی میں کوئی ہمسفر نہیں 
جھک کر ملا جو تجھ سے وہ چرخِ کبود تھا 
میں حسنِ آرزو کی سحر ڈھونڈتا رہا 
تُو رات کا نقیب تھا شب کا سرود تھا 
میں بھی حضورِ غالبِ یکتا رہا ظفرؔ
ذرے کا، آفتاب کے دم سے وجود تھا

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment