Friday, 15 January 2016

گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے

گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
بہار آئی تو گلشن کے دام بھی آئے
ہمِیں نہ کر سکے تجدیدِ آرزو، ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے
چلا نہ کام اگرچہ بہ زعمِ راہبری
جنابِ خضرؑ علیہ السلام بھی آئے
جو تشنہ  کامِ ازل تھے وہ تشنہ کام رہے
ہزار دور میں مِینا و جام بھی آئے
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہِ حیات میں ایسے مقام بھی آئے

غلام ربانی تاباں

No comments:

Post a Comment