گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
بہار آئی تو گلشن کے دام بھی آئے
ہمِیں نہ کر سکے تجدیدِ آرزو، ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے
چلا نہ کام اگرچہ بہ زعمِ راہبری
جو تشنہ کامِ ازل تھے وہ تشنہ کام رہے
ہزار دور میں مِینا و جام بھی آئے
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہِ حیات میں ایسے مقام بھی آئے
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment