سحر کے بعد بھی اکثر سحر نہیں ہوتی
ہوائے دشت بہت معتبر نہیں ہوتی
یہ افتخار بھی کیا کم ہے زندگی کے لیے
وہ بے ثبات سہی، بے ہنر نہیں ہوتی
سنے گا کون ہماری کہیں تو کس سے کہیں
یہ اور بات ہے پھر کوئی حادثہ ہو جائے
مسافروں سے خفا رہگزر نہیں ہوتی
عجیب بات ہے کس کو یقین آئے گا
اُدھر بھی ہوتی ہے منزل جدھر نہیں ہوتی
چمن میں چشم و چراغِ چمن کسے کہتے
اگر سیاستِ برق و شرر نہیں ہوتی
مزا تو یہ ہے کہ بستی میں بے نواؤں کی
گھروں کو حاجت دیوار و در نہیں ہوتی
جہانِ غم کی روایت کا کیا گِلہ تاباںؔ
طلب کی رات رہینِ سحر نہیں ہوتی
غلام ربانی تاباں
No comments:
Post a Comment