Friday, 15 January 2016

سحر کے بعد بھی اکثر سحر نہیں ہوتی

سحر کے بعد بھی اکثر سحر نہیں ہوتی
ہوائے دشت بہت معتبر نہیں ہوتی
یہ افتخار بھی کیا کم ہے زندگی کے لیے
وہ بے ثبات سہی، بے ہنر نہیں ہوتی
سنے گا کون ہماری کہیں تو کس سے کہیں
کہ گردِ راہ دلیلِ سفر نہیں ہوتی
یہ اور بات ہے پھر کوئی حادثہ ہو جائے
مسافروں سے خفا رہگزر نہیں ہوتی
عجیب بات ہے کس کو یقین آئے گا
اُدھر بھی ہوتی ہے منزل جدھر نہیں ہوتی
چمن میں چشم و چراغِ چمن کسے کہتے
اگر سیاستِ برق و شرر نہیں ہوتی
مزا تو یہ ہے کہ بستی میں بے نواؤں کی
گھروں کو حاجت دیوار و در نہیں ہوتی
جہانِ غم کی روایت کا کیا گِلہ تاباںؔ
طلب کی رات رہینِ سحر نہیں ہوتی

غلام ربانی تاباں

No comments:

Post a Comment