مہکی ہیں فضائیں کس کے لیے چھائی ہیں گھٹائیں کس کے لیے
مے خانے میں جب ساقی ہی نہیں میخانے میں جائیں کس کے لیے
جب مجھ سے نگاہیں ملتے ہی تم آج خفا ہو بیٹھے ہو
پھر یہ تو بتاؤ کل تم نے مانگی تھی دعائیں کس کے لیے
وہ رسمِ خرد کے دیوانے ۔۔ ہر طرزِ جنوں کے شیدائی
اے توبہ شکن، اے غنچہ دہن، اے عشوہ طراز صبحِ چمن
یہ مست نظر، یہ شوخ ہنسی، یہ خاص ادائیں کس کے لیے
ہنگاموں سے وہ ڈر جاتے ہیں، تنہائی سے گھبرا جاتے ہیں
ہم شہر اجاڑیں کس کے لیے، ویرانے بسائیں کے لیے
افسوس ایازؔ اب کوئی نہیں جو اہلِ وفا کی لاج رکھے
تاریک فضاؤں میں آخر ہم شمعیں جلائیں کس کے لیے
ایاز جھانسوی
No comments:
Post a Comment