Friday, 22 January 2016

کچھ تو احوال غم دل بھی سنایا ہوتا

کچھ تو احوالِ غمِ دل بھی سنایا ہوتا
رک گیا تھا تو اسے اور بھی روکا ہوتا
شام اتری ہے سرِ عرصۂ صحرائے خیال
منظرِ دل سے کوئی چاند بھی ابھرا ہوتا
کسی پتے سے ہی ملتا کوئی عنوانِ بہار
پھول کوئی تو سرِ شاخ بھی مہکا ہوتا
جس کی گلیوں میں ہوا بن کے پھرے ہیں برسوں
کوئی اس شہر سے اپنا بھی علاقہ ہوتا
وہ ملا تھا سرِ راہے پہ بہت لوگ تھے ساتھ
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
لے اڑی تجھ کو کہاں منزلِ جاناں کی ہوا
ناسمجھ! راہ میں کچھ اور بھی کھویا ہوتا
شام ٹھہری ہوئی ہوتی، لبِ جُو تُو ہوتا
عکس پانی میں تِرے رخ کا لرزتا ہوتا

اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment