Friday 22 January 2016

مرے عزیزو تمام دکھ ہے

مِرے عزیزو تمام دکھ ہے
مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقيدت سے سننے والو
مِرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنيا بسانے والو
مِرے الم آفريں تکلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعيں جلانے والو
بدن کو تحليل کرنے والی رياضتوں پرعبور پائے ہوئے، سکھوں کو تَجے ہوئے بے مثال لوگو
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھنے والو، عزيز بچو، ميں بجھ رہا ہوں
مِرے عزيزو، ميں جل چکا ہوں
مِرے شعورِ حيات کا شعلۂ جہاں تاب بجھنے والا ہے
مِرے کرموں کی آخری موج ميری سانسوں ميں گھل چکی ہے
ميں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آ گيا ہوں
تو سن رہے ہو، مِرے عزيزو، ميں جا رہا ہوں
ميں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے، نہ اب کسی چيز پر نظر ہے
ميں اب تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ نيستی کے، سکوتِ کامل کے
جہلِ مطلق، (کہ مطلق ہے)  جہلِ مطلق کے
بحرِ بے موج سے ملوں گا تو انت ہو گا
اس التباسِ حيات کا، جو تمام دکھ ہے
ميں دکھ اٹھا کر، مِرے عزيزو، ميں دکھ اٹھا کر
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھ گيا ہوں؛ تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے، وجود کی يہ نمود دکھ ہے
حيات دکھ ہے، ممات دکھ ہے
يہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے
شعور کيا ہے، اک التزامِ وجود ہے اور وجود کا التزام دکھ ہے
جدائی تو خير آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
کہ ملنے والے جدائی کی رات ميں مليں ہيں، يہ رات دکھ ہے
يہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، يہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظيم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے، کہ کون دنيا ميں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے
يہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
مِرے عزيزو تمام دکھ ہے
مِرے عزيزو تمام دکھ ہے

اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment