کرے بے خود شبِ غم کا فشار آہستہ آہستہ
جکڑ لیتا ہے یادوں کا حصار، آہستہ آہستہ
رواں ہوتا ہے جب دریا ان آنکهوں سے تِرے غم کا
تو بڑهتا ہے سمندر میں فشار، آہستہ آہستہ
کریں وہ پُرسشِ غم بهی تو اس امید پر ہم سے
وہ تیِرِ نیم کش کی کیا عجب رفتار دهیمی سی
بڑی فرصت میں کرتے ہیں شکار آہستہ آہستہ
ابهی مدہوش ہوں میں وصلِ الفت کا بهرم رکھ لے
اتر جائے نہ آنکهوں سے خمار آہستہ آہستہ
کروں گا شکوۂ وعدہ خلافی بهی اسی لمحے
تِرے وعدے جو ہو جائیں ہزار، آہستہ آہستہ
میں رکهتا ہوں وِصال و ہِجر میں کچھ فاصلہ جب سے
تو بڑهتا ہے محبت کا وقار آہستہ آہستہ
میں اس بادِ صبا کی جستجو میں ہوں جو لاتی ہے
بہار آہستہ آہستہ، قرار آہستہ آہستہ
حیاتؔ اپنے غمِ دل کو میں کم ہونے نہیں دیتا
میں کرتا ہوں ستم ان کے شمار آہستہ آہستہ
جاوید حیات
No comments:
Post a Comment