چلی جو بادِ نسیم ہم نے کیا شروع اپنا کام صاحب
نکل پڑے میکدے کی جانب، لیے ہوئے خالی جام صاحب
یہاں پہ زاہد و رِند سب کا فقط ہے ساقی امام صاحب
یہی ہے دستور میکدے کا، یہی یہاں کا نظام صاحب
کبهی صنم کا غزل میں اپنی لکها نہیں ہم نے نام صاحب
عجب طرح سے لبوں پہ اس نے انا کی بندش لگا رکهی ہے
کبهی تو لے کر پکار لیتا، ہمارا ہونٹوں پہ نام صاحب
حسد کے بازار میں رفیقوں نے خوب اچهالی ہے میری دستار
لگا سکا نہ کوئی بهی بولی، نہ دے سکا کوئی دام صاحب
میں بند رکهتا ہوں کان اپنے، جهکا کے رکهتا ہوں نظر بهی اپنی
اسی لیے تو ہیں میرے مداح، شہر کے سب خاص و عام صاحب
غمِ فراقِ صنم جو شب بهر، لگے تهے دل کو اجاڑنے میں
خمارِ بادِ سمومِ صبح، اتار دے گا تمام صاحب
حیاتؔ دشتِ جنوں میں آٹهوں پہر بهٹکتا ہے آج کیوں کر
جو دن کے خنجر سے بچ گیا بهی تو دهر ہی لے گی یہ شام صاحب
جاوید حیات
No comments:
Post a Comment