Wednesday, 2 March 2016

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی مِلے
بہاروں میں اب کی نئے گل کھِلے
نجانے کہاں لے گئے قافلے
مسافر بڑی دور جا کر مِلے
وہی وقت کی قید ہے درمیاں
وہی منزلیں اور وہی فاصلے
جہاں کوئی بستی نظر آ گئی
وہیں رک گئے اجنبی قافلے
تمہیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو
ہمیں بھی زمانے سے ہیں کچھ گِلے
ہمیں بھی کریں یاد اہلِ چمن
چمن میں اگر کوئی غنچہ کھِلے
ابھی اور کتنی ہے میعادِ غم
کہاں تک ملیں گے وفا کے صِلے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment