Thursday, 3 March 2016

کیسی بے چہرہ رتیں آئیں وطن میں اب کے

کیسی بے چہرہ رتیں آئیں وطن میں اب کے
پھول آنگن میں کھلے ہیں نہ چمن میں اب کے
برف کے ہاتھ ہی، ہاتھ آئیں گے اے موجِ ہوا
حِدتیں مجھ میں، نہ خوشبو کے بدن میں اب کے
دھوپ کے ہاتھ میں جس طرح کھلے خنجر ہوں
کھردرے لہجے کی نوکیں ہیں کرن میں اب کے
دل اسے چاہے جسے عقل نہیں چاہتی ہے
خانہ جنگی ہے عجب ذہن و بدن میں اب کے
جی یہ چاہے کوئی پھر توڑ کے رکھ دے مجھ کو
لذتیں ایسی کہاں ہوں گی تھکن میں اب کے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment