سبز موسم کی خبر لے کے ہوا آئی ہو
کام پت جھڑ کے اسیروں کی دعا آئی ہو
لوٹ آئی ہو وہ شب جس کے گزر جانے پر
گھاٹ سے پائیلیں بجنے کی صدا آئی ہو
اسی امید میں ہر موجِ ہوا کو چوما
گیت جتنے لکھے ان کیلیے اے موجِ صبا
دل یہی چاہا کہ تو ان کو سنا آئی ہو
آہٹیں صرف ہواؤں کی ہی دستک نہ بنیں
اب تو دروازوں پہ مانوس صدا آئی ہو
یوں سرِ عام، کھلے سر میں کہاں تک بیٹھوں
کسی جانب سے تو اب میری ردا آئی ہو
جب بھی برسات کے دن آئے، یہی جی چاہا
دھوپ کے شہر میں بھی گھِر کے گھٹا آئی ہو
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر، موجِ بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment