Wednesday, 2 March 2016

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
کانٹوں کے ویراں جنگل میں
میں کس مشکل سے پہنچا تھا
یہ جنگل اور تیری خوشبو
کیا میں سپنا دیکھ رہا تھا
آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں
میں جنہیں پہروں ہی تکتا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
تُو نے بھی کوئی بات نہ پوچھی
میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا
اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تُو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
تیرے ہاتھ کی چاۓ تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کیسے کہوں روداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment