پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
کانٹوں کے ویراں جنگل میں
میں کس مشکل سے پہنچا تھا
یہ جنگل اور تیری خوشبو
آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں
میں جنہیں پہروں ہی تکتا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
تُو نے بھی کوئی بات نہ پوچھی
میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا
اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تُو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
تیرے ہاتھ کی چاۓ تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کیسے کہوں روداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment