محروم خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں! نہ تھا کبھی
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
دن بھی اداس اور میری رات بھی اداس
ایسا تو وقت اے غم دوراں! نہ تھا کبھی
دورِ خزاں میں یوں مِرے دل کو قرار ہے
میں جیسے آشنائے بہاراں نہ تھا کبھی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment