مول اک لے کے مکاں فصل اگانی گھر کی
بھول بیٹھا تھا میں خود چھاؤں بچھانی گھر کی
یاد آتی ہے فلیٹوں کے گھنے جنگل میں
مست آنگن کی ہوا، شام سہانی گھر کی
بام و در دیکھ کے روتے ہیں دمِ مرگ مجھے
مجھ میں غیرت ہے نہ اب تجھ میں حمیّت باقی
ہم نے بازار میں بیچی ہے جوانی گھر کی
پہلے شبخون وہ مارے گا اسی کے اوپر
جس نے دشمن کو بتائی ہے نشانی گھر کی
بات ہونٹوں سے جو نکلی تو چڑھی کوٹھوں پر
بات کتنی بھی نئی ہو کہ پرانی گھر کی
گھر کی باندی جو برابر سے کرے سولہ سنگھار
دل سے راجہ کے اتر جاتی ہے رانی گھر کی
چھت کی کڑیوں میں بھی پُرکھوں کی جڑی ہیں آنکھیں
کہتی رہتی ہیں خموشی سے کہانی گھر کی
کاش مر جائے مِری آنکھ کا پانی خسروؔ
دیکھتے دیکھتے بنیاد میں پانی گھر کی
فیروز ناطق خسرو
No comments:
Post a Comment