کبھی ہے دشت، کبھی چشمِ تر سمندر ہے
جلو میں آگ لئے ہم سفر سمندر ہے
ہوا کا شور ہے، بارش ہے، اور تنہائی
جدھر نگاہ کریں ہے ہم ادھر سمندر ہے
مِری سرِشت میں ہے گہرے پانیوں کا سفر
کشاں کشاں لئے جاتا ہے شوق غواصی
مِرے حساب میں لعل و گہر، سمندر ہے
اِدھر حباب، اُدھر میرے ہم نفس گرداب
ابھرتے، ڈوبتے پیشِ نظر سمندر ہے
تجھے یہ غم کہ در و بام لے گیا سیلاب
وہ لوگ بھی ہیں یہاں جن کا گھر سمندر ہے
اب اس قدر بھی نہ موجوں کو سر چڑھا اپنے
سمجھ نہ کھیل اسے، کچھ تو ڈر سمندر ہے
بدل رہا ہے شب و روز راستہ، خسروؔ
سنا ہے میری طرح در بدر سمندر ہے
فیروز ناطق خسرو
No comments:
Post a Comment