Monday, 3 October 2016

یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں

یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں
میرے اجڑنے کے اسباب پوچھ لیتے ہیں
میں پوچھ لیتا ہوں یاروں سے رت جگوں کا سبب
مگر وہ مجھ سے مِرے خواب پوچھ لیتے ہیں
اسی گلی میں جہاں آفتاب ابھرا ہے
کہاں گیا ہے وہ مہتاب پوچھ لیتے ہیں
اب آ گئے ہیں تو اس دشت کے فقیروں سے
رموزِ منبر و محراب پوچھ لیتے ہیں
کسی کو جا کے بتاتے ہیں حالِ دل ناسکؔ
کسی سے ہِجر کے آداب پوچھ لیتے ہیں

اطہر ناسک

No comments:

Post a Comment