یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں
میرے اجڑنے کے اسباب پوچھ لیتے ہیں
میں پوچھ لیتا ہوں یاروں سے رت جگوں کا سبب
مگر وہ مجھ سے مِرے خواب پوچھ لیتے ہیں
اسی گلی میں جہاں آفتاب ابھرا ہے
اب آ گئے ہیں تو اس دشت کے فقیروں سے
رموزِ منبر و محراب پوچھ لیتے ہیں
کسی کو جا کے بتاتے ہیں حالِ دل ناسکؔ
کسی سے ہِجر کے آداب پوچھ لیتے ہیں
اطہر ناسک
No comments:
Post a Comment