Monday, 3 October 2016

سفر بھی جبر ہے ناچار کرنا پڑتا ہے

سفر بھی جبر ہے ناچار کرنا پڑتا ہے 
عدو کو قافلہ سالار کرنا پڑتا ہے 
گلے میں ڈالنی پڑتی ہیں دھجیاں اپنی
اور اپنی دھول کو دستار کرنا پڑتا ہے
بنانا پڑتا ہے سوچوں میں اک محل اور پھر
خود اپنے ہاتھ سے مسمار کرنا پڑتا ہے 
نجانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کے لیے
خود اپنی ذات سے انکار کرنا پڑتا ہے 
کوئی بھی مسئلہ پھر مسئلہ نہیں رہتا
ذرا ضمیر کو بیدار کرنا پڑتا ہے 
بنانا پڑتا ہے اپنے بدن کو چھت اپنی
اور اپنے سائے کو دیوار کرنا پڑتا ہے 
ہماری گردنیں مشروط ہیں سو ان کیلئے
سروں کو خم سرِ دربار کرنا پڑتا ہے 

اطہر ناسک

No comments:

Post a Comment